راوی شہر کابہترین ماحولیاتی نظام ہی لاہور بچاسکے گا

تحریر ۔۔۔شیر افضل بٹ
 دریا کنارے زندگی کی شروعات آج نہیں بلکہ زمانہ قدیم سے قائم ہوئیں ، قوموں کی ترویج ہمیشہ اچھی خوراک اور ماحول سے تعبیر ہوتی رہیں ۔دنیا کے مختلف ممالک میں جب بھی فاتح کسی علاقہ پر قا بض ہوتا تو سب سے پہلے اپنے خاندان اور ساتھیوں کی خوراک فراہمی کےلئے جو منصوبہ بندی کر تا اس کا پہلا جزو پانی ہو تا پھر خوراک،یہ فاتح مفتوح کے علاقوں میں زمین سے اناج کی پیدا گیری کےلئے مختلف طریقے اپناتا ، دریاڈھونڈتا اس کے کنارے اپنی آبادیوں کو بڑھانا حاکمیت کا پہلا،،گر،،گردانتا،اس عمل کی وقوع پذیری کے بعد حاکم بہتر ماحولیاتی نظام سے اپنی رعایا کو زندگی کی نئی نئی جہتوں سے متعارف کر انابھی فرض اولین سمجھتا۔راوی کنارے آبادپنجاب کا صوبائی دارلحکومت،، لاہور،، سینکڑوں سالوں تک بہترین ماحول ،وسائل کی بنا پر تہذیب کا گہوارہ رہا ۔ مشرق ومغرب میں اس کی درسگاہوں اور باغوں کا چرچا ہی اسے دنیا کے دوسرے شہروں سے ممتاز کر تا۔وقت کا دھاراا پنی چال چلتا رہا اور خطہ میں ہرسوبدلتی ہوئی،، راج نیتی ،،نے حاکم کوعیش وعشرت کا دلدادہ جبکہ رعایا کو ،،ننگا فقیر،، بنادیا ۔عوام کی فلاح کے نام پر جمہوریت کا لبادے اوڑھے،، شریف سرکار،، نے کبھی بھی عوام کو سہولت دینا اپنا شعار نہ سمجھا ۔لاہور کے چند تخت نشین راوی کنارے بسے اس شہر کو خوبصورت بنانے کی بجائے اس کو ،،گہنانے،، میں مصروف عمل رہے ، شجر کاٹنے کی روش نے ماحولیات کا نظام تباہ کر کے رکھ دیا۔پاکستان میں 2018کے الیکشن نے تحریک انصاف کی جماعت کو ملک گیر کامیابی دلائی تو عوام کا ہر دلعزیز عمران خان ملک کا وزیر اعظم بن گیا جنہوںنے اپنی ،،جنتا ،، کےلئے ہاﺅسنگ کے میگا پراجیکٹ شروع کئے نئے شہر اباد کرنے اوراپنے سمندر وںپر بنے جزیروں کو دنیا کا خوبصورت خطہ بنانے کا اعلان کیا ۔راوی اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کےلئے جب وزیر اعظم نے اتھارٹی بنائی تو اس کی ذمہ داری شہرہ آفاق انجینئر راشد عزیز کو سونپ دی ۔،،روڈا ،،کا خطاب پانیوالی اس اتھارٹی کی ٹیم نے اسے تعمیرات کی دو فیز میں تقسیم کیا ۔دریائے راوی پر بننے والے اس نئے شہر میں ماحولیاتی نظام کی مضبوطی کےلئے نئے اور اچھوتے آئیڈیاز کو اپنایا گیا۔نئی آبادکاری اور راوی شہرکو زندگی کی تما م جدتوں سے مزین کرنے کےلئے ،،روڈا ٹیم ،، نے EIA انوائرمنٹ امپیکٹ اسیسمنٹ کی تیارہ کردہ رپورٹ کی روشنی میں اپنی ترجیحات طے کیں اور کام شروع کر دیا رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ اگر دریا راوی کو نئی زندگی دینے کےلئے فوری طور پر چند تجاویز پر عمل نہ کیا گیا تو دریا کے ساتھ ساتھ قدیم شہر،، لاہور ، ، کی عمر بھی ختم ہو جائیگی ۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ کس طرح 1960میں بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کے تحت راوی کا پانی اپنے نام کیا اور پھر دریائے راوی پرجدید مادھو پور ہیڈ ورکس بنا ،2000ءمیں تھین ڈیم کی تعمیرا ت ہوئیں اور پاکستان میں آنیوالے راوی کو خشک کردیا گیا ،حقیقت میں تھین ڈیم کے بعد راوی کی حیاتی ختم ہوگئی راوی کنارے بسے لوگ کی زندگیاں معاشی طور پر اجڑ گئیں،راوی کہانی یہاں ختم نہ ہوئی بلکہ شہر لاہور کی مختلف سمتوں سے پڑے والے گندے نالوں نے اسے بڑا نالہ بنادیا اور اس گندے پانی سے کئی موذی بیماریوں نے جنم لیا ۔EIAرپورٹ میں یہ کہا گیا کہ دریائے راوی پر نیا شہر آباد کر نے کےلئے راوی میں پڑنے والے 14نالوں کا گندہ پانی مختلف مقامات پر واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے ذریعے صاف کر کے دریا میں ڈالا جائے بی آر بی نہر سے کم بہاﺅ والے دنوں میں اکتوبر سے جنوری تک یہاں پانی چھوڑا جائے ،دریا کنارے آباد بھینس بستیوںکو ڈیری زون میں تبدیل کروا کے یہاں معاشی انقلاب لایا جائے ،جنگلات کے کٹاﺅ کو روکنے کےلئے ٹھوس اقدام کئے جائیں اور نئے ماحولیاتی نظام کو صاف اور بہتر بنانے کےلئے ابتدائی طور پردریائی ساحل پر 7سو ایکٹر کا جنگل لگانا وقت کی اہم ضرورت سمجھا جائے 0.22MAFکی مصنوئی جھیل بنائی جائے جوکہ پانی سٹوریج کا ایک بڑا ذریعہ ہوا ،اپنے تاریخی اور ثقافتی ورثہ کے تحفظ کےلئے 3بیراج بنائیں جائیں جو کہ کسی آفت یا ناگہانی سیلاب کی شکل میں شہر کا دفاع کرسکیں بیراجوں میں ماہی گیری کے پیشہ کو ترویج دینے کےلئے وہاں اطراف میں سیڑھیاں بھی بنیں ، پودے بھی لگائیں جائیں،EIAکی رپورٹ کے مطابق زرعی اور ماحولیاتی ضروریات کے پیش نظر اربن فاریسٹ اور اربن فارم بھی بننا ناگزیر ہیں،لاہور اوراس کے اطراف میں زمینی پانی کی سطح نیچے گرنے سے روکنے کےلئے موثر اقدام کی ضرورت ہے اس حوالے سے ایل ڈی اے کے آئین میں جوترامیم کی گئی ہیں ان پر من وعن عمل کیا جائے ۔تاریخ گواہ رہیگی کہ صوبائی دارلحکومت میںراوی منصوبہ سے گراﺅنڈ واٹر لیول اوپر آنے سے زندگی نے نیا جنم لیا اور پنجاب کی راجدھانی کوبچانے کےلئے نئے لاہور کابہترین ماحولیاتی نظام ہی اس کی بقا کی بڑی ضمانت بن گیا۔۔